ہاتھی اور اُسکی رسی کا واقعہ

ہاتھی اور اُسکی رسی کا واقعہ


مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں جب  میں نے ایک چڑیا گھر میں ایک عظیم الجثہ ہاتھی کو ایک چھوٹی  سی رسی سے  اسکے اگلے پاؤں کو بندھا ہوا دیکھا تو مجھے بہت حیرت  ہوئی تھی۔ ہاتھی رسی کے ساتھ بندھے ہوئے کھڑا  تھا ایک محدود دائرے میں گھوم رہا تھا۔ ہاتھی کی ضخامت کے اعتبار سے تو اُسے کسی مضبوط زنجیر اور فولادی کڑے سے باندھا جانا چاہیئے تھا۔ مجھے یقین تھا کہ یہ ہاتھی کسی بھی لمحے اپنے پاؤں کی معمولی جنبش سے اس رسی کو تڑا کر آزادی حاصل کر سکتا تھا مگر وہ ایسا نہیں کر رہا تھا۔
مجھے جیسے ہی ہاتھی کا رکھوالا نظر آیا تو میں نے اُسے اپنے پاس بلا کر پوچھا: یہ اتنا بڑا ہاتھی کس طرح ایک چھوٹی سی رسی سے بندھا ہوا کھڑا ہے اور یہ کیوں نہیں اپنے آپ کو چھڑوا کر بھاگ جاتا؟
ہاتھی کے رکھوالے نے مجھے بتایا کہ: اس طرح کے بڑے جانور جب پیدا ہوتے ہیں تو یقینی بات ہے کہ اس سے کہیں چھوٹے ہوتے ہیں۔ ہم ان کو باندھنے کیلئے اس قسم کی چھوٹی سی رسی ہی استعمال کرتے ہیں۔اس قسم کی چھوٹی سی رسی اس وقت اُن کی عمر اور جسم کے لحاظ سے باندھنے کیلئے کافی ہوتی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ جانور تو بڑے ہوتے رہتے ہیں مگر ان کی سوچ وہی رہتی ہے کہ کہ ابھی بھی وہ اس رسی کو نہیں توڑ سکتے۔
 یہ جان کر مجھے بہت حیرت ہو رہی تھی کہ اتنے بڑے جانور جو اپنی طاقت سے بڑی بڑی وزنی چیزوں کو اٹھا کر ادھر ادھر کر سکتے ہیں۔ مگر  انکا  دماغ  اسی پرانی سوچ سے بندھا رہتا ہے جس کی وجہ سے وہ اس رسی کی قید سے کبھی بھی نجات نہیں پا سکتے۔
بعض اوقات ہماری مثال بھی تو بالکل ایسی ہی ہوتی ہے ۔ یہی سوچ کر کہ ہم کچھ نہیں کر پائیں گے یا کچھ کیا تو ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا یا یہ کام ہمارے بس اور ہمارے روگ کا ہی نہیں جیسی سوچ کی وجہ سے ہم قناعت کے ساتھ ایک  لگے بندھے مفاد کے ساتھ چپکے رہتے ہیں ۔ اسی سوچ کی وجہ سے ہم اپنی ذات، مفاد اور رہن سہن میں بھی کوئی تبدیلی نہیں لا سکتے۔
کوشش کرکے نئے وسائل اور نئے راستوں کو اپنائیےاور اپنی زندگی میں  مثبت  طریقے سے اور مثبت تبدیلیاں لا کر  بہتری کی طرف قدم بڑھائیے۔ ہمارے ماحول اور معاشرے میں تو کئی ایسے جھوٹے اعتقادات اور وہمی افکار موجود ہیں جو ہمیں کامیابی کی طرف قدم ہی نہیں اُٹھانے دیتے، کامیابی تو اس کے بعد کا مرحلہ ہے۔ ہمارا واسطہ اکثر -یہ تو ناممکن ہے-،  -یہ تو بہت مشکل کام ہے-،  -یہ تو مجھ سے نہیں ہو پائے گا- وغیرہ جیسے کلمات سے سے پڑتا ہے۔ یقین جانیئے یہ سب کچھ جھوٹ اور بنی ہوئی باتیں ہیں جن کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ پر عزم ، بلند حوصلے اور اللہ پر توکل رکھنے والا انسان ان سب کہاوتوں  کا  انکار کرتے ہوئے ان  رکاوٹوں کو عبور کر لیا کرتا ہے۔
تو پھر آپ ان جھوٹے افکار و عقائد کے خلاف ایک آہنی ارادے کے ساتھ کیوں نہیں اُٹھ کھڑے ہوتے؟ ایک پختہ عزم اور پکے ارادے کے ساتھ اور  کامیابی کے راستے پر گامزن ہونے کیلئے؟

0 comments :